تو جو مل جائے
تو جو مل جائے از انا الیاس قسط نمبر6
وہ جو لاؤنج سے گزر رہی تھی۔ فون کی گھنٹی پر آگے بڑھنے کی بجاۓ فون اٹھا ليا۔ خبيب وہيں صوفے پر بيٹھا نيوز چينل ديکھ رہا تھا۔ شام کا وقت تھا گھر کی سب خواتين وہيبہ کی شادی کی شاپنگ کے لئيۓ گئ ہوئيں تھيں۔ سواۓ اس کے۔ "ہيلو" اس نے نمبر ديکھے بنا فون اٹھا ليا تھا۔ مگر نجانے دوسری جانب کون تھا کہ پہلے تو اس کے چہرے کا رنگ اڑا۔ خبيب جس کی بے ارادہ نظر اسکی جانب اٹھی تھی وہ وہيں پر ساکت ہوگئ۔ وہيبہ کے چہرے کی اڑتی رنگت اس سے مخفی نہيں رہ سکی۔ تھوڑی دير بعد اسے محسوس ہوا کہ جيسے وہ کپکپا رہی ہو۔ "سوری رانگ نمبر" اور پھر چند ہی سيکنڈز کے بعد اس نے آہستگی سے فون رکھ ديا۔ مگر اسیے ہاتھوں ميں واضح لرزش تھی۔ وہ اتنی ڈسٹربڈ لگی کہ وہاں خبيب کی موحودگی کو بھی فراموش کر گئ۔ چند قطرے اسکی آنکھوں سے بہے اور پھر وہ تيزی سے سيڑھيوں کی جانب بڑھ گئ۔ خبيب خاصا الجھ گيا۔ تيزی سے اٹھ کر اس نے جيسے ہی سی ايل آئ پر نمبر چيک کيا تو وہ ہارون کے گھر کا تھا۔ نمبر ديکھ کر وہ اور بھی الجھ گيا کہ آخر ايسی کيا بات ہوئ ہے کہ وہيبہ نے رانگ نمبر کہہ کر فون رکھ ديا ہے۔ وہ اسے اتنی دقيانوسی نہين سمجھتا تھا کہ اس کے منگيتر کا فون آۓ اور وہ رانگ نمبر کہہ کر بند کر دے۔ آخر شروع سے اسے خاندان ميں سب نے بے باک مشہور کيا ہے۔ اور اسکی پھوپھيوں نے تو اسکی بے باکی کے کافی قصے بھی سناۓ ہيں۔ تو پھر۔۔۔
"جی اماں آپ نے بلايا تھا" وہ جو ابھی بھی کالج سے آئ تھی۔ اماں کا پيغام ملتے ہی انکے کمرے ميں چلی آئ۔ آج اس کا کالج ميں آخری دن تھا شادی ميں دو ہفتے رہ گۓ تھے آج اس نے ريزائن کر دينا تھا۔ "ريزائن دے آئيں" اماں حسب سابق اپنے بيڈ پر بيٹھی تھيں۔ "جی اماں" اس نے مختصر جواب ديا۔ انہوں نے اسے اپنے پاس بيڈ پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ "تمہاری ساس کا فون آيا تھا وہ آج شام ميں کچھ شاپنگ تمہارے ساتھ تمہاری مرضی کی لينا چاہتی ہيں لہذا وہ تمہيں لے جائين گی۔ تم شام ميں تيار رہنا" "مگر اماں اس سب کی کيا ضرورت ہے انہيں کہں جو بھی وہ ليں گی ميں پہن لوں گی آپ جانتی تو ہيں مجھے ان چيزوں کا نہ تو شوق ہے نہ کريز" رقيہ بيگم کی بات سن کر اسکے تو اوسان خطا ہوگۓ۔ "ہر بات ميں ضد نہيں کرتے۔ سب گھروں ميں يہی ہوتا ہے۔ وہ کون سا اپنے گھر لے جائيں گی ۔ واپس چھوڑ جائيں گی تمہيں اور ويسے بھی ڈرائيور کے ساتھ ہی آئيں گی تو تمہين کيا تکليف ہے جانے ميں" رقيہ بيگم اسکے ہر وقت کی انکار اور نکتہ چينيوں سے اب خود بھی تنگ پڑنے لگ گئيں تھيں۔ اسے ڈپٹا۔ وہ خاموش ہوگئ۔ بات تو وہ ٹھيک کر رہی تھين۔ کون سا ہارون آۓ گا۔ شام ميں جس وقت اسکی ساس آئيں تو وہ واقعی ميں اکيلی ہی تھيں۔ دو بيٹے تھے ان کے ايک ہارون تھا اور دوسرا زارون تھا جو ملک سے باہر ہوتا تھا۔ وہ چپ چاپ انکے ساتھ آکر گاڑی ميں بيٹھ گئ۔ وہ خود بھی مغرور عورت تھيں۔ وہيبہ سے کوئ خاص گفتگو نہيں کی۔ بس حال چال پوچھ کر ڈرائيور کو کسی مال کے سامنے رکنے کا کہنے لگيں۔ شاپنگ وہيبہ کی پسند سے کيا کرنی تھی وہ خود ہی اپنی مرضی سے سب لئيے جا رہي تھيں۔ وہيبہ ويسے بھی ان کاموں ميں کوری تھی۔ اسکے اپنے کپڑے ابھی تک نيہا يا پھر ربيعہ لاتی تھيں۔ لہذا اس نے شکر ہی کيا کہ انہوں نے اسکی پسند نہيں پوچھی۔ ايک گھنٹہ شاپنگ کرنے کے بعد يکدم انہين کوئ سہيلی نظر آگئ اور وہ وہيبہ کو مال کے درميان ميں لگے فاؤنٹين کے پاس رکنے کا کہہ کر نجانے کس سمت غائب ہوگئيں۔ کچھ دير تو وہ يونہی کھڑی رہی مگر پھر آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی انکی واپسی نہ ہوئ تو وہ تھوڑا پريشان ہوئ۔ ان کا نمبر اس کے پاس سيو نہين تھا۔ نہيں تو فون کرکے ان سے پوچھ ليتی کے کب تک آئيں گی نہيں پو وہ کيب لے کر گھر چلی جاتی۔ "عجيب مصيبت ميں پھنس گئ ہوں" وہ منہ ہی منہ ميں بڑبڑائ۔ "ہيلو" يکدم اپنے پيچھے سے آنے والی آواز کی جانب مڑی اور سامنے والے کو ديکھ کر اسکے چہرے کا رنگ اڑ گيا۔ وہ کوئ اور نہيں ہارون تھا۔ وہيبہ نے تھوگ نگلی۔ "کيسی ہو ڈارلنگ" اس کے گھٹيا طرز تخاطب پر وہيبہ کا دل کيا اسکا منہ توڑ دے۔ مگر خاموش رہی اور کوئ جواب دئيۓ بنا ادھر ادھر ديکھنے لگ گئ۔ جيسے ابھی بھی اکيلی کھڑی ہو۔ ہارون کا اپنا يوں نظر انداز کيا جانا کھولا گيا۔ "ممی کے ساتھ آئ ہو" ايک اور سوال۔ "جی" اس نے پھر ہارون کی جانب ديکھے بنا بادل نخواستہ جواب ديا۔ وہ اسکے انداز پر دانت کچکچکا کر رہ گيا۔ "ممی باہر گاڑی ميں آپ کا انتظار کر رہی ہيں" اسکی بات پر حيرت سے اس نے ہارون کی جانب ديکھا۔ "تو پہلے کيوں نہيں بتايا آپ نے اور آنٹی تو ابھی کسی دوست سے ملنے گئيں تھيں" اس نے کچھ مشکوک نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ "ميں کيا جھوٹ بول رہا ہوں ميں آفس سے کسی کام کے سلسلے ميں آيا تھا۔ ممی باہر کھڑيں تھيں کہنے لگيں وہ گاڑی ميں بيٹھنے جا رہی ہيں تو ميں آپکو اندر سے بلا لاؤں۔اگر اب بھی آپکو يقين نہيں تو ميں فون پر آپکی بات کروا ديتا ہوں۔ پتہ نہين آپ اتنی بے اعتبار کيوں ہو رہی ہيں۔" اس نے جھنجھلاتے ہوۓ موبائل نکال کر نمبر ڈائل کرنا چاہا۔ "نہيں رہنے ديں۔ چليں" وہيبہ اسے روکتے ہوۓ قدم باہر کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولی۔ "آپ مجھے گاڑی کا نمبر اور جگہ بتا ديں جہاں پارک ہوئ ہے ميں چلی جاتی ہوں کيونکہ مجھے ياد نہين کہ کس سائيڈ پر پارک کی تھی" وہ آتے وقت خود سے اتنی الجھی ہوئ تھی کہ يہ ياد ہی نہ رکھ پائ کہ گاڑی کہاں پارک تھی۔ اسی لئيۓ جلدی سےہارون سے پوچھا تاکہ اس سے تو جان چھٹے۔ "ارے ميں لے جاتا ہوں نا آپکو کيا اتنی سی آپکی ہيلپ نہيں کرسکتا ميں" وہ تيز سے چلتا ہوا بولا اور يکدم اسکا ہاتھ بھی تھام گيا۔ "ميرا ہاتھ چھوڑيں آپ" وہ جو اسے تقريباّّ دوڑاتا ہوا لے جا رہا تھا۔ اسکی اس حرکت پر وہيبہ کا دماغ غصے سے گھوم گيا۔ اسے خطرے کی بو آئ۔ "چھوڑ ديں گے جانم۔۔۔پہلے صحيح سے مل تو ليں" اسکے طرز تخاطب ايک مرتبہ پھر وہيبہ کی جان جلا گيا۔ "آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہيں" ايک تاريک کونے کی جانب اسے بڑھتا ديکھ کر وہ چلائ۔ مگر اس سے بھی پہلے ہارون نے تيزی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسکی آواز بند کی۔ اردگرد کوئ تھا بھی نہيں۔ يہ مال کا نجانے کون سا حصہ تھا۔ "ايک لفظ بھی اور نکالا تو يہيں پر وہ سب کر جاؤں گا جس کا شايد تم تصور بھی نہ کر سکو۔ آرام سے جہاں لے جا رہا ہوں چلی چلو۔ صرف کچھ وقت کے لئيے تمہاری خوبصورتی کو خراج بخشوں گا" اسک بات کا مفہوم سمجھ کر اسکی جان نکل گئ۔ "ميں کہہ رہی ہوں کہ چھوڑو مجھے نہيں تو ميں تمہارا بہت برا حشر کروں گی۔"وہ غصے سے اپنا ہاتھ کھينچتی مزاحمت کرتی چلائ۔ اسکے چلانے کی آواز اتنی اونچی ضرور تھی جو وہيں قريب کھڑے خبيب کو بآسانی آگئ۔ وہ بھی کسی کام سے اسی مال ميں اتفاقاّّ آيا تھا۔ مال کے اندر اتنا شور ہنگامہ تھا کہ باہر ہونے والی کسی بھی کاروائ کا کسی کو پتہ نہين چل سکتا تھا۔ خبيب شايد پوليس ميں ہونے کی وجہ سے حساس حسيات کا مالک نہ ہوتا تو ايک نسوانی آواز سننے سے محروم رہتا۔ وہ تيزی سے اس حصے کی جانب بڑھا جہاں سے آواز آئ تھی۔ "خبردار اگر کوئ تماشا کيا يہيں زمين ميں گاڑ دوں گا" اسکے چيخنے پر ہارون اسکے بال مٹھی ميں دبوچتا ہوا غرايا۔ يکدم دونوں کی نظر اس ساۓ پر پڑی جو تيزی سے ان کی جانب آ رہا تھا۔ اندھيرا ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہين پاۓ کہ کون ہے۔ "اگر يہ کچھ آکر پوچھے تو يہی کہنا کتا پاس سے گزرا تھا تو ميں ڈر گئ۔ کوئ اور بکواس کی تو نتيجے کی ذمہ دار تم خود ہوگی" وہ اسکے کان کے قريب آکر بولا۔ "کون ہے يہاں اور يہ لڑکی کيوں چلائ" وہ جو بولتا ہوا نزديک آيا مگر چاند کی مدہم روشنی ميں وہيبہ کے تکليف زدہ چہرے اور ہارون کی کمپوزڈ چہرے کو ديکھ کر يک لخت ساکت ہوگيا۔ "ارے يہ تو آپ ہيں مسٹر کزن" ہارون بھی اسے پہچان گيا۔ "اسلام عليکم کيسے ہيں آپ" اس نے کچھ لمحوں کی تاخير کے بعد ہارون کو سلام کرتے مصافحہ کے لئيۓ ہاتھ بڑھايا۔ مگر ايک نظر وہيبہ کے زرد پڑتے چہرے کی جانب ديکھنا نہين بھولا تھا۔ "مجھے پوچھنا تو نہيں چاہئيے مگر چونکہ ہماری فيملی ميں شادی سے پہلے يوں ملنا معيوب سمجھا جاتا ہے سو کيا ميں پوچھ سکتا ہون کہ آپ دونوں يہاں کيسے" سنجيدہ لہجے ميں اس نے ہارون پر نظريں گاڑتے ہوۓ پوچھا۔ وہ ابھی گھر سے ہی آرہا تھا اور اسکی اطلاع کے مطابق وہيبہ اپنی ساس کے ساتھ شاپنگ پر گئ تھی۔ وہ جس وقت رقيہ بيگم کو سلام کرنے گيا تب سرسری سا انہوں نے بتايا تھا جسے اسے نے بھی سرسری سا سنا تھا۔ مگر يہاں اسے وہيبہ کی ساس کہيں دکھائ نہين دے رہيں تھيں۔ اور بالفرض ان دونوں نے چھپ کر ملنے کا کوئ پلين بھی بنايا تھا تو وہيبہ کے چہرے پر جس طرح کے تاثرات تھے وہ اپنے من پسند بندے يا منگيتر سے ملنے والے قطعاّّ نہيں تھے۔ صرف تکليف اور دھشت تھی۔ اسی لئيۓ خبيب کا الجھنا بنتا تھا۔ "ہم تو شادی کی شاپنگ پر آۓ تھے۔ کيا يہ بھی معيوب ہے آپکی فيملی ميں" خبيب کے سوال پر پہلے تو ہارون کا رنگ اڑا پھر بات سنبھالتا ہوا وہ طنز سے بولا۔ "نہيں مگر مجھے معلوم ہوا تھا آپکی ممی بھی ساتھ ہيں" اس نے سپاٹ لہجے ميں ہارون کے ہاتھ کی جانب ديکھا جس ميں اس نے وہيبہ کا ہاتھ سختی سے تھام رکھا تھا۔ "ہاں وہ گھر چلی گئ ہيں انکی طبيعت کچھ ٹھيک نہين تھی ميں وہيبہ کو گھر چھوڑنے ہی جا رہا تھا" ايک اور جھوٹ۔ جسں پر خبيب نے بھنويں اچکاتے ہارون کو بڑے غور سے ديکھا تھا۔ "تو ميں بھی گھر ہی جا رہا ہوں۔۔وہيبہ چليں" ہارون کو کہتے ساتھ ہی اس نے وہيبہ کو مخاطب کيا۔ جس کے چہرے پر يک لخت سکون سا اترتا محسوس ہوا۔ "تو ميں بھی تو چھوڑنے ہی جا رہاہوں" ہارون کا لہجہ اب کی بار سخت ہوا وہ کسی صورت اسے اس وقت چھوڑنا نہيں چاہتا تھا۔ کچھ نشے نے بھی دماغ گھوما رکھا تھا۔ اور کچھ اپنی پلينگ ناکام ہونے کا بھی غصہ تھا۔ "ميں تو رہتا ہی اس گھر ميں ہوں سو مجھے کوئ ايسا ايشو نہين ہو گا آپکو آؤٹ آف دا وے جانا پڑے گا۔ چليں وہيبہ" اب کی بار خبيب کے بے لچک لہجے کو ديکھ کر ہارون نے دانت پيس کر وہيبہ کا ہاتھ چھوڑا جہاں اسکی وحشيانہ گرفت نشان چھوڑ گئ تھی۔ وہيبہ تيزی سے خبيب کے پاس آئ۔ "اوکے بائ" ہارون سے مصافحہ کئيے بنا وہ وہيبہ کو لئۓ چلا گيا۔ ہارون ہاتھ ملتا رہ گيا اس نے ماں کو فون کرکے کہا تھا کہ وہ وہيبہ کے ساتھ ڈنر کرنا چاہتا ہے سو وہ کوئ موقع ارينج کريں۔ انہوں نے شاپنگ کا بہانا کرکے انہيں موقع ديا۔ ان کی فيملی ميں لڑکے اور لڑکی کا شادی سے پہلے ملنا ملانا معيوب نہين سمجھا جاتا تھا لہذا انہيں وہيبہ کی فيملی کی يہ بات بری لگی۔ اوپر سے ہارون کی بے جا لڑکی سے ملنے کی ضد نے ماں کو عاجز کر ديا کہ انہيں اس کا ساتھ دينا پڑا۔ خبيب نے سارے راستے وہيبہ سے کوئ بات نہين کی اور نہ وہيبہ نے اس سے۔مگر وہيبہ کی سرخ کلائ اسکی تيز نظروں سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔ اور وہيبہ وہ تو بس شاکڈ تھی۔ گھر آکر خبيب سيدھا دادی کے کمرے کی جانب بڑھا۔ "آئندہ وہاں سے کوئ شخص يہ مطالبہ کرے کے وہيبہ ان کے ساتھ شاپنگ پر جاۓ تو يہ نہيں جاۓ گی" خبيب کو غصے ميں ديکھ کر رقيہ بيگم حيران ہوئيں۔ "کيا مطلب ہوا کيا ہے وہيبہ کہاں ہے" خبيب نے سب تو نہيں بتايا۔ مگر يہ ضرور بتايا کہ ہارون کی ماں اسے وہاں چھوڑ کر چلی گئ اور ہارون اس کے ساتھ تھا۔ "کيا کہہ رہے ہو۔" انہون نے اچنبھے سے پوچھا۔ "صحيح کہہ رہا ہوں آپ پھوپھو سے کہہ کر گلہ کريں يہ کوئ طريقہ ہے" وہ پھر غصے سے بولا۔ "ٹھہرو ميں کہتی ہوں" انہوں نے کہتے ساتھی ہی ثمينہ کو فون کيا انہوں نے ہارون کی ماں سے بات کرنے کا کہا۔ کچھ دير بعد ان کا فون آيا اور ان کی بات سن کر رقيہ بيگم چپ رہ گئيں۔ "کيا کہہ رہی ہيں" خبيب نے انہيں گم صم ديکھ کر پوچھا۔ "وہ کہہ رہی ہے اگر وہ دونوں مل بھی ليتے ہين تو کيا ہوگيا ہے دو ہفتےبعد تو شادی ہے۔۔" "تو اپنے بيٹے سے کہيں کہ دوہفتے صبر کرے اتنا کيا عذاب آيا ہوا ہے" خبيب غصے سے بولا۔ "بيٹا يہ شادی بياہ کی باتوں ميں سو باتيں سوچنی پڑتی ہيں اب دو ہفتوں ميں کوئ بد مزگی نہ ہو جاۓ۔ بس چھوڑ دو اب اس بات کو اب ہم دوبارہ احتياط کريں گے" دادی کی بات پر وہ خاموش نظروں سے انہيں ديکھ کر رہ گيا۔ "اور اگر آج وہ خبيث انسان کوئ آئندہ آنے کا موقع نہ ديتا تو۔۔۔" يہ بات وہ صرف سوچ کر رہ گيا۔ دل ميں اس نے مصمم ارادہ کيا کہ وہ ہارون کی ريپوٹيشن کا پتہ کرواۓ گا۔ اسے وہ بندہ اچھے قماش کر نہيں لگ رہا تھا۔ منگنی والے دن بھی وہ اتنا اچھا نہين لگا تھا۔ پھوپھو سے بھی اس نے اپنے خدشے کا اظہار کيا۔ تو انہوں نے کہا۔ "بيٹا لڑکے ايسے ہی لابالی ہوتے ہيں۔ ويسے بہت شريف ہے۔ شادی ہوتے ہی ذمہ دار ہو جاۓ گا" پھوپھو کی بات پر وہ مطمئن تو نہيں ہوامگر يہ سوچ کر چپ کر گيا کہ فراز چچا نے بيٹی دينے سے پہلے لڑکے کا پتہ کروايا ہوگا۔ مگر کچھ دن پہلے ہی اسے معلوم ہوا تھا کہ فراز پو ثمينہ کے کہۓ گۓ دعوں پر ہی آنکھيں بند کرکے يقين کرچکے ہيں۔ مگر اب خبيب کو لگا کہيں تو وہيبہ کے ساتھ زيادتی ہو رہی ہے۔ کہاں يہ اب اسے پتہ کرنا تھا۔
آخر ميں نے ايک ہفتے بعد انہی کے گھر جانا ہے نا پھر يہ سب کھڑاگ پالنے کی کيا ضرورت ہے اور ويسے بھی آپ سب لوگ جا رہے ہيں نا تو پھر ميری کوئ ايسی خاص ضرورت نہيں ہے۔ پليز اماں ميں تھگ گئ ہوں ان لوگوں کی فرمائشيں ہی ختم ہونے ميں نہيں آرہيں۔ "ہاں بيٹا مگر اب انہوں نے اتنی چاہت سے بلايا ہے تو کيا کرسکتے ہيں۔ ويسے بھی ہارون تو آؤٹ آف سٹی ہے تو تمہيں کيا پريشانی ہے" انہوں نے رسان سے اسے سمجھايا آخر ڈرتے دل سے وہ مان ہی گئ۔ ہارون کی فيملی نے انہيں شادی سے ايک ہفتہ پہلے ڈنر پر گھر بلايا تھا اور تاکيد کی تھی کہ وہيبہ کو لازمی لے کر آئين۔ تاکہ وہ اپنا روم بھی ديکھ لے اور کوئ تبديلی کروانی ہو تو کروا لے۔ رقيہ بيگم کے خاندان ميں ان باتون کو اہميت نہيں دی جاتی۔ مگر اب جب رشتہ ايک ايسے گھر ميں کر ليا تو اب کجھ تو ان کے تقاضے ماننے تھے۔ ويسے بھی وہ وہيبہ کے اس رشتے کو لے کر بہت حساس ہو رہيں تھيں۔ اور شادی سے ايک ہفتہ پہلے کوئ ايسی بد مزگی نہيں چاہتی تھيں کہ لڑکے والوں کو برا محسوس ہو۔ گھر کے سب لوگ جا رہے تھے سواۓ خبيب کے جو کہ ہفتہ سے کسی کيس کے سلسلے ميں شہر سے باہر تھا۔ رات ميں وہ لوگ ہارون کے گھر پہنچے۔ گھر کيا تھا نجانے کتنے رقبوں پر بنا محل تھا۔ وہ سب لڑکياں گھر والوں سے مل کر ہارون کی ممی کے کہنے پر لان ميں آگئيں۔ ايک جگہ فاؤنٹين سا بنايا گيا تھا جس کے آس پاس کی ساری جگہ پر نہايت خوبصورت پتھروں کی باؤنڈری تھی۔ فائنٹين ميں لائٹس اتنی خوبصورتی سے نسب تھيں کہ چند سيکنڈز بعد وہ رنگ بدلتيں تھيں۔ اتنا خوبصورت سب کچھ ہونے کے باوجود وہيبہ کو يہاں گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سب باتوں ميں مگن تھيں کہ اچانک کسی نے وہيبہ کے کندھے کو اپنے ہاتھ کے شکنجے مين ليا۔ "ہيلو پريٹی گرلز" ہارون کی آواز پہچان کر وہ جو چيخ مارنے والی تھی يکدم اپنی جگہ جامد ہوگئ۔ آنکھوں مين وہی ہوس لئيۓ اس نے وہيبہ کو ديکھا۔ پھر سب کی جانب متوجہ ہو کر ان سے حال چال پوچھنے لگا۔ مگر وہيبہ کے کندھے سے ہاتھ نہيں ہٹايا۔ اسے سب کے سامنے بے طرح شرم محسوس ہوئ۔ ان کے گھروں ميں شادی سے پہلے اس طرح کی بے تکلفی پسند نہيں کی جاتی تھی۔ وہ سب ابھی ہارون کی اچانک آمد کے بارے ميں استفسار کر رہی تھيں۔ کہ ہارون کے کندھے پر کسی نے ہاتھ مار کر جيسے اسے متوجہ کيا۔ "ہيلو سر کيسے ہيں" خبيب نے اس انداز ميں اس کا وہيبہ کے کندھے پر رکھا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے کر ہٹايا اور دونوں کے بيچ کھڑا ہوا کہ وہيبہ اس کے پيچھے چھپ گئ۔ "کيسے ہيں آپ۔۔سنا تھا آپ تو آج گھر پر ہی نہيں۔۔" ہارون کو اس کا يہ انداز ناگوار تو گزرا مگر مجبورا ّّ اسے چپ کرکے مہمان نوازی نبھانی پڑی۔ خبيب جيسے ہی گھر پہنچا اسے گھر ميں کام کرنے والوں سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ وہيبہ کے سسرال گۓ ہيں اور وہيبہ بھی ان کے ہمراہ ہے۔ خبيب نے کچھ دنوں سے ہارون کے بارے ميں پوچھ گچھ کا کام شروع کروايا ہوا تھا۔ اور جو کچھ اسے معلوم ہوا تھا اس کے بعد تو وہ يہ شادی ہونے کے حق ميں ہی نہيں تھا۔ اسے بے تحاشا غصہ آيا کہ جب اس نے دادی کو منع کيا تھا کہ اب اس کا ہارون سے آمنا سامنا نہ ہو تو پھر وہ کيوں اسے لے گئيں۔ وہ جلدی سے کپڑے بدل کر گاڑی بھگاتا ہوا وہاں لے گيا۔ سب سے مل کر اسے پتہ چلا کہ وہ سب تو يہ سوچ کر وہيبہ کو لے آۓ تھے کہ وہ نہيں ہو گا مگر اب وہ آگيا تھا۔ خبيب کے پوچھنے پر ہارون کی ممی نے بتايا کہ وہ سب لان ميں ہيں جيسے ہی پہنچا سامنے کے منظرے نے اسے کھولا ديا۔ اور اس کے بعد تو وہ ساۓ کی طرح ہارون کے ساتھ رہا اور وہيبہ اور باقی لڑکيوں کو کھانا ختم ہوتے ہی وہاں سے لے کر گھر آگيا۔ "جب ميں نے آپ کو منع کيا تھا کہ آپ نے وہيبہ کو ہارون کے سامنے اب نہين کرنا تو آپ لوگ اسے کيوں لے گۓ۔ اتنے ہی سادہ ہيں آپ لوگ کہ کسی نے کہا کہ ہمارا بيٹا نہيں اور آپ لوگ مان گۓ۔ انتہائ شاطر لوگ ہيں وہ۔ اور چچا آپ نے رشتہ ہونے سے پہلے کچھ بھی اس لڑکے کے بارے مين پتہ نہيں کروايا حيرت ہے مجھے۔ اتنی ہی بھاری ہے وہيبہ آپ پر کہ اسے جس کسی راہ چلتے کے ساتھ آپ شادی کروا کر نکال ديں گۓ۔" وہ تو سب کے گھر آتے ہی رقيہ اور فراز صاحب کو رقيبہ بيگم کے کمرے ميں لے جا کر پھٹ پڑا۔ "ايک نمبر کا شرابی، بدمعاش اور زانی ہے يہ بندہ اور آپ لوگ اتنی آسانی سے اپنی بيٹی ايسے شخص کو دينے پر تلے ہيں۔ ميں نے دو تين دنوں سے اپنے بندے اس کے پيچھے لگاۓ ہوۓ تھے، اور آج جب ساری رپورٹ ملی ہے تو ميں تو چکرا کر رہ گيا ہوں۔" وہ دونوں خبيب کی بات سن کر دنگ رہ گۓ۔ "ميں ثمينہ سے بات کرتی ہوں" رقيہ بيگم نے مشتعل ہوتے ثمينہ کو فون کيا۔ "کيا ہوگيا ہے اماں وہ کبھی ايسا تھا اور پھر لڑکے تو جوانی ميں يہ سب کرتے ہيں شادی ہوتے ہی ٹھيک ہو جاتے ہيں اور آپ کا اپنا بيٹا کيا اس نے پسند کی شادی نہيں کی۔ آخر شادی سے پہلے ملاقاتيں کرکے ہی بات اس نہج پر پہنچی تھی نا تو پھر اس ميں ايسی کيا معيوب بات ہے اگر ہارون بھی ہمارے بھائ جيسا نکلا۔" رقيہ بيگم نے اسپيکر آن کيا ہوا تھا۔ لہذا ثمينہ کی آواز ان تينوں نے باسانی سن لی تھی۔ اور جس بات کا طعنہ وہ آخر ميں دے گئيں تھيں۔ انہوں نے فراز صاحب کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ديا۔ اور وہ سر جھکاۓ خاموشی سے کمرے سے سب سے پہلے نکل گۓ۔ جبکہ خبيب اس بات پر الجھ کر رہ گيا وہ نہيں جانتا تھا کہ ثمينہ پھوپھو نے کس بات کا حوالہ ديا ہے